آ گیا کون سر بزم یہ ساقی بن کے

آ گیا کون سر بزم یہ ساقی بن کے
زندگی جھوم اٹھی طرفہ شرابی بن کے


ایک سنگین حقیقت ہے مرا خون جنوں
دامن گل میں مہکتا ہے کہانی بن کے


اب تو محرومیٔ داماں نہیں دیکھی جاتی
تم برس جاؤ کبھی یادوں کے موتی بن کے


آج جو شیریں اداؤں میں بسر ہوتی ہے
کل یہی جام میں گھل جائے گی تلخی بن کے


کو بہ کو ڈھونڈھے گی اک روز نگاہ دنیا
ہم جو قربت میں تری کھو گئے دوری بن کے


آئنہ جب بھی کوئی ان کے مقابل ہوگا
ہم اتر جائیں گے عکس رخ ماضی بن کے


ٹوٹ جائیں گے بہت وقت کے شانے ناظمؔ
ہم بکھر جائیں گے جب کاکل گیتی بن کے