امت کا استعارہ

ہماری قوم کب تک "امت, امت" کرتی رہے گی.
 ہم نے امت کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے؟
اب ہمیں امت کا نہیں اپنا فائدہ سوچنا چاہیے."

اس قسم کی لغو گفتگو کل سے سننے میں آرہی ہے. بعد میں خبر ہوئی کہ یہ قومی مہم بن چکی ہے, امت سے خلع لے کر اسرائیل سے عقد ثانی پڑھوانے کو کچھ لوگ بیتاب ہیں. ( وہ بھی بِنا تکمیلِ عِدت کے)

لیکن آخر یہ امت ہے کیا, جس کا فائدہ ہم 72 سالوں سے سوچتے آئے ہیں اور اب جسے چھوڑ کر ہمیں اپنا فائدہ سوچنا ہے. میں نے ایک صاحب سے پوچھا. انہوں نے اسکا جواب نہیں دیا, تو سوچا کہ میں خود اسکا جواب تلاش کرلوں.

سادہ ترین الفاظ میں:
ایک نبی کی شریعت کو ماننے والے ایک امت کہلاتے ہیں. چونکہ ہم شریعت محمدی (صلی الہ علیہ والہ وسلم) کے پیروکار ہیں تو ہم امت محمدیہ ہیں. ہر وہ شخص جو اسلام کو دین تسلیم کرتا ہے وہ امتی ہے. چونکہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی وجہ سے رشتہ امت سے منسلک ہیں سو میں نے آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)  کے فرموداتِ بابرکات میں امت کی تعریف تلاش کرنا چاہی. آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کا ارشاد ہے

"مسلمان جسد واحد کی طرح, جب جسم کا ایک حصہ دکھتا ہے تو سارا جسم درد محسوس کرتا ہے."

سو معلوم ہوا کہ امت ایک جسم ہے. یعنی مسلمان پاکستان میں رہتا ہو, قطر میں رہتا ہو, بحرین میں رہتا ہو, سعودیہ عرب میں رہتا ہو, وہ ایک ہی جسم کے مختلف اعضاء ہیں. میرا ایک سادہ سا سوال ہے ، کیا جسم کا کوئی حصہ جسم سے جدا ہوکر پھل پھول سکتا ہے؟ فائدہ حاصل کرسکتا ہے؟ ترقی کرسکتا ہے؟

آج صبح سے میں کاموں میں مصروف تھا, شام کو میں لیٹا تو میری ٹانگوں کے پاس سے ایک شور سنائی دیا, تھکا ہوا تھا تو غصے سے کہا کہ بند کرو یہ شور, کیا تماشا گھر میں لگا رکھا ہے. پھر احساس ہوا کہ میں کمرے میں اکیلا ہوں اور یہ شور میری ٹانگوں کا احتجاج ہے. وہ کہہ رہی تھیں کہ 22 سال سے تم ہمیں چلا رہے ہو, بھگا رہے ہو, کبھی کیچڑ میں اتار دیتے ہوں, کبھی مٹی میں کودتے ہو, مگر ہاتھوں کو تو تم نے بہت صاف رکھا ہوا ہے, سب قربانیاں ہم دے رہی ہیں اور باقی جسم عیاشی کررہا ہے. بہت ہوگیا اب ہم تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتیں.
اب ہم علی کاظمی کے ساتھ رہیں گی وہ بھی اسمعیل شاہ کاظمی کا پوتا ہے اسلیے ہمارا کزن ہے. میں نے لاحول پڑھی اور سمجھایا کہ ٹانگیں بنو بابا کوڈا نہ بنو.

 احمق، اگر تم مجھ سے کٹ گئیں تو تم گل سڑ جاؤ گی, اور علی کاظمی تمہیں مٹی میں دفن کردے گا. تم میرے بغیر اور میں تمہارے بغیر ، دنوں بے کار ہیں. تم الگ نہیں ہو میرے جسم کا حصہ ہو,  میرا نقصان تمہارا نقصان ہے, میرا فائدہ تمہارا فائدہ ہے.

یاد رکھیے! امت ایک جسم ہے اور پاکستان اسکا ایک عضو, ہر عضو جسم سے منسلک ہونے کی وجہ سے نشونما پاتا ہے. جس دن یہ جسم سے کٹ گیا یہ گل سڑ کر ختم ہوجائے گا.

امت کو ہماری نہیں ہمیں امت کی ضرورت ہے, امت ہماری پہچان, ہماری شناخت ہے. کیونکہ ہم مصطفوی ہیں.

اسرائیل وہ کینسر ہے, جو اس جسم کو ناکارہ اور تباہ کرنا چاہتا ہے. اسنے اپنے وائرس ہمارے حکمرانوں کی صورت میں ہم پر چھوڑے ہیں. پڑھیے خلافت کے خاتمے کے قصے, انہی کے آبا و اجداد نے امت سے غداری کی اور حکمران بن بیٹھے. پڑھیے 1857 کی جنگ کے قصے, جن سرداروں نے امت سے غداری کی انکے بچے پاکستان میں حکمران بنا دیے گئے.

کیا نہیں جانتے کہ سکندر مرزا اور میر جعفر کا کیا رشتہ تھا, شاہ محمود صاحب نے یہ جاگیریں کہاں سے بنائیں؟

کیا انہی لوگوں نے سید احمد شہید سے غداری نہیں کی. تم جسم کی بیماری کی وجہ سے جسم سے الگ ہونا چاہتے ہو, ارے نادان! تم ہی تو یہ جسم ہو.

ہاں مجھے معلوم ہے کہ پوری دنیا نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے, مگر مجھے یہ بھی یاد ہے کہ جب سب لوگوں نے یزید کی بیعت کرلی تھی تو امام عالی مقام تن تنہا کربلا میں بھوکے پیاسے اپنے پھولوں کا نذرانہ اس امت کے لیے دے رہے تھے.

ہم اسرائیل کو تسلیم کرلیں اور اسرائیل مسجد اقصی ڈھا کر ہیکلِ سلیمانی بنا لے, ہم انڈیا کو راہداری دیں اور انڈیا کشمیر میں خون کی ہولی کھیلے.

کل رسول بھی فرما دیں کہ ہم نے امت کا ٹھیکا نہیں لیا تو محشر میں کسے اپنا حامی پائیں گے؟

ہم نے خود جب چوڑیاں پہن لی ہیں تو کیا اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے منہ موڑ لیں گے؟؟؟
جبکہ
ہم ہیں مِنّت گُزارِ شہِ انبیاء ، جِس نے خوں سے شریعت کو توقیر دی
جِس کے شِکمِ مبارک پہ پتّھر بندھے ، جِس نے وِرثے میں اُمّت کو شمشیر دی