القابات کی حیثیت

نام، کسی بھی انسان کا تعارف اور اس کی شخصیت کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ نام، انسان کو پہچان عطا کرنے کے  ساتھ ساتھ اسے دوسروں سے منفرد بھی بناتے ہیں۔ تخلیق آدمؑ کے بعد، اسے سب سے پہلے اشیاء کے نام سکھائے گئے۔

"اس کے بعد اللہ نے آدمؑ کو سب چیزوں کے نام سکھائے۔" البقرہ 31

 

نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے بچوں کے اچھے نام رکھنے کی تلقین کی ہے۔ مسند احمد میں حضرت ابودرداء سے روایت ہے کہ: " قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے باپوں کے نام سے پکارے جاؤ گے، پس اپنے لیے اچھے نام رکھو" (مسند احمد، ابوداؤد)

"عرف"، وہ نام ہے جو عموماً بچپن میں ہی کسی خوبی و خامی کی وجہ سے پڑ جاتا ہے۔ ویسے بچپن یا کوئی بھی عمر  اس کے لیے شرط نہیں ۔ اگر عرفیت کا تعلق محبت و چاہت کے اظہار کے لیے ہو، جیسے اکثر ہم بچوں کو پیار سے "چاند"، "شہزادہ"، "گڑیا" وغیرہ کہہ دیتے ہیں، تو یہ مناسب ہے۔ مگر کسی کو اس کی کسی خامی کی وجہ سے کوئی نام دینا ایک اخلاقی برائی ہے۔   اللہ تعالیٰ نے صریحاً  اس قبیح عمل سے منع فرمایا ہے ۔

چنانچہ سورۃ الحجرات کی گیارہویں آیۃ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

"اے  لوگو ، جو ایمان لائے ہو ، نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں ، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں (یعنی جن کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، وہ مذاق اڑانے والوں سے بہتر ہوں )،

اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔  آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو  بُرے القاب سے پکارو۔ ایمان لانے کے  بعد     بُرا نام رکھنا  گناہ ہے ، اور جو توبہ نہ کریں ، وہی ظالم ہیں۔ "

 

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں دوسروں کی محرومیوں ، ناکامیوں ، آزمائشوں  کی بنیاد پر ان کا مذاق اڑانے، انھیں  تضحیک کا نشانہ بنانے کا چلن عام ہے۔

یہ نام مختلف خامیوں جیسے رنگت، جسمانی نقص، ذہنی حالت، پیشے، حرکات و عادات کی بنیاد پر پڑ جاتے ہیں۔ ہمارے پنجاب میں، کالو، کانا، لنگڑا،  ٹیڑا ، بھینگا ، بونگا، اندھا، چُوڑا، موٹا،  مراثی وغیرہ ، ایسے برے  نام عام بول چال کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان ناموں میں انسانی تضحیک کا پہلو جھلکتا ہے۔ کسی بھی شخص کو ایسی عرفیت سے پکارنا جس میں اس کی تضحیک کی جائے یا ٹھٹھہ اڑایا جائے ،انتہائی مذموم حرکت ہے۔  یہ تحقیر و توہین معاشرے معاشرے میں موجود بہت سے مسائل کی بنیاد ہے۔

 

وہ اشخاص جنھیں ان کی کمیوں پر تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے، شدید ذہنی کرب کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان کی شخصیت کا اعتماد ٹوٹ جاتا ہے اور وہ لوگوں میں خود کو غیر محفوظ اور سب سے کٹا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ یہ ذہنی اذیت  ان کی شخصیت، ان کے اعتماد، ان کی بول چال یا شاید ان کی  پوری زندگی کو متاثر کرتی ہے۔ ان کی اصل شخصیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر مٹ جاتی ہے اور اس کی جگہ ایک ڈری اور سہمی  ہوئی شخصیت لے لیتی ہے۔ اس لیے کسی بھی شخص کو ایسی اذیت دینا اسے قتل کرنے کے مترادف ہے۔ گو قانون میں اس کی کوئی سزا نہیں مگر اخلاقی طور پر یہ انتہائی قبیح فعل ہے۔ یہ کسی بھی انسان کی اخلاقی پستی کی انتہا ہے کہ وہ لوگوں کے لیے اذیت کا باعث ہو۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ: "مومن وہ ہے کہ جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں" (متفق علیہ)

قرآن مجید میں دوسروں کو بے جا ایذاء دینے سے متعلق اللہ تعالیٰ نے سخت تنبیہ کی ہے۔

"اور جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو بے قصور اذیت دیتے ہیں اُنہوں نے ایک بڑے بہتان اور صریح گناہ کا وبال اپنے سر لے لیا ہے۔" (الاحزاب-58)

جب  کہ سورۃ  البروج  کی دسویں آیۃ میں ارشاد ہے:

"جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو تکالیف سے دوچار کیا ، اور پھر توبہ بھی نہ کی تو  ان کے لیے دوزخ کا عذاب ہے اور انہی کے لیے جلائے جانے کا بھی عذاب ہے۔"

لازمی ہے کہ ہم لوگ اپنے رویوں کا محاسبہ کرتے ہوئے اس بات کا ادراک کریں کہ ہمارے بعض رویے ہمارے اقارب  کے لیے رنج کا باعث بن رہے ہیں۔ ہمیں ایسے رویوں کو ختم کرتے ہوئے، اچھے رویوں کو فروغ دینا چاہیے۔ ہمیں مسئلہ نہیں بلکہ مسئلے کا حل بننا چاہیے۔ ایک ایسی روایت کو ترک کرکے جو ہمارے لیے آگے چل کر باعث شرم ہو، ایک ایسی روایت کو اپنے پیچھے چھوڑنا چاہیے، جو ہمارے اور ہماری نسلوں کے لیے مفید ہو۔ ایک ایسی روایت جس پر ہم فخر کرسکے۔ یاد رکھیں! صرف وہی معاشرے پنپتے اور ترقی کرتے ہیں جہاں احترام باہمی اور عزت آدم موجود ہو۔ اپنے ہم جولیوں، ساتھیوں کے ساتھ احترام سے پیش آئیں۔ حسد، جلن، اور کسی کو تضحیک کا نشانہ بنانے جیسے جذبات سے مغلوب نہ ہو۔