اب عمر کی نقدی ختم ہوئی

آج مجھ سے میرے سات سالہ شاگرد نے پوچھا

 " سر، کتنے پیسے زیادہ ہوتے ہیں؟؟؟"

میں نے اس کہا کہ جتنے پیسوں میں آپ خوش ہوجائیں۔  پھر میں نے  اس سے سوال کیا کہ آپ کتنے پیسے ملنے پر خوش ہوجاتے ہیں؟؟؟

اس نے جواب دیا کہ "میں تو دس روپے ملنے پر بھی خوش ہوجاتا ہوں۔"

میں نے کہا کہ "اگر آپکو پانچ ہزار مل جائے تو؟؟"

وہ بولا ،"ان کا کیا فائدہ ، وہ تو مجھ سے گم ہو جائیں گے۔"

مجھے اس بات سے ایک عجیب سا احساس ہوا  کہ ایک بچہ زیادہ رقم ملنے پر انھیں گم کر بیٹھتا ہے اور ایک جوان ذیادہ دولت کمانے کے لئے خود گم ہو جاتا ہے۔

درحقیقت دس روپے ہی ہماری ضرورت ہیں اور زیادہ پیسے گم کردینا ہماری عادت مگر پیسہ کمانے کی ہوس ہم پر ، ہمارے حواس پر، ہمارع عقل و فہم سب پر چھا جاتی ہے۔

 ہم پیسہ کمانے میں اتنے مگن ہوجاتے ہیں کہ ہمیں وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں رہتا، ہماری آنکھ تب کھلتی ہے جب ہمارے بالوں میں چاندی اترنا شروع ہوتی ہے اور ہمارے جوڑوں میں درد شروع ہوجاتا ہے۔ اگر جوڑے دار ہوں تو پھر شریکِ حیات کے جوڑوں میں بھی!!!  اس وقت ،جب کہ انتھک محنت ہماری سب توانائیاں نوچ لیتی ہے اور بیماریاں ہمیں آن گھیرتی ہیں، تب ہم کہیں جا کر سانس لینے کو رکتے ہیں۔

لیکن۔۔!  ابھی سانس ہی درست نہیں ہوتی کہ سانس اکھڑنے کا سمے ہمیں  آن گھیرتا ہے ، بلاوا آجاتا ہے اور زندگی بھر کی کمائی گئی دولت میں سے (استعارتاً) دس روپے ہی کفن دفن پر لگتے ہیں، بقیہ  پانچ ہزار ہم پھر سے گم کردیتے ہیں۔