امام احمد رضا کی تصنیف فوز مبین در رد حرکت زمین کا جائزہ

         روز اول سے فلسفہ و فلکیات میں زمین کے ساکن ہونے یا متحرک ہونے کی بحث چلتی رہی ہے۔ یونانی فلسفیوں نے زمین کے چپٹے ہونے کے تصور کو رد کرتے ہوئے زمین کے گول ہونے کا تصور پیش کیا  (300 ق م) ۔ یونانی فلسفی  بطلیموس نے زمین  مرکزِ کائنات کے ایک محوری نظام  کا تصورپیش کیا۔ اس نظام کے تحت زمین مرکز کائنات ہے، اور اس کے گرد افلاکی اجسام کے دو محور ہیں، سورج ، چاند اور سیارے جو حرکت کرتے ہیں، اور ستارے جو مستقل ہیں۔ سولہویں صدی  تک بطلیموس کا زمین مرکزِ کائنات کا یہ نظام ایک تسلیم شدہ حقیقت مانا جاتا رہا۔نکولس وہ پہلا شخص تھا جس نے زمین کی بجائے سورج کو مرکز کائنات قرار دیا ، بعد ازاں گلیلیو  نے اس نظریے کی توثیق کی۔ زمین کی حرکت کا نظریہ کلیسا کی تعلیمات کے خلاف ہونے کے باعث گلیلیو کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ، جس پر اس نے اس نظریے سے توبہ کر لی تو اس سزا کو دائمی نظر بندی  میں بدل دیا گیا۔ نیوٹن نے سترہوی صدی کے آخر اور اٹھارہویں صدی کے آغاز میں اپنے نظریات پیش کیے جس کے باعث نکولس کا حرکت زمین کا نظریہ ایک حقیقت تسلیم کرلیا گیا۔

عیسائی   مذہبی نمائندوں کے ہاں ہمیشہ سے زمین کی مرکزیت پر زور دیا گیا ہے، اس کی دلیل وہ اپنی مذہبی کتب سے لیتے ہیں، عیسائی کلیسا کی گلیلیو کی مخالفت کرنے کی وجہ ان کے نزدیک گلیلیو کا مذہبی باغی ہونا تھی۔ بائبل کی کتاب مناجات میں بیان کیا گیا ہے

"اس نے زمین کو اس کی بنیادوں پر استوار کیا، تاکہ وہ حرکت نہ کرسکے" 104:5

"سب قوموں میں منادی کرو، خداوند حاکم ہے، یا  زمین مستحکم ہے، یہ کبھی نہ ہلے گی، خداوند لوگوں کے درمیان انصاف کرے گا" 96:10

ابتدائی عہد کے بہت سے اسلامی علماء زمین کے ساکت ہونے پر زور  دیتے ہیں، اور سورۃ الانبیاء کا حوالہ پیش کرتے ہیں۔

"وہی اللہ ہے جس نے رات اور دن کو بنایا، یہ سب اپنے اپنے دائروں میں تیر رہے ہیں" 21:33

"اور سورج اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے، یہ زبردست علیم ہستی کا باندھا ہوا حساب ہے۔ اور چاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کردی ہیں، یہاں تک کہ ان سے گذرتا ہوا وہ پھر سے کجھور کی سوکھی شاخ جیسا ہوجاتا ہے۔ نہ سورج کے بس میں ہے کے چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے، سب ایک ایک مدار  میں تیر رہے ہیں" (سورۃ یٰس)

ان تمام آیات  کی روشنی میں علماء نے یہ اخذ کیا کہ زمین ساکن اور مرکز کائنات ہے اور سورج اور چاند اور سیارے اس کے گرد گھومتے ہیں۔ یہ یاد رہے کہ متقدمین کے زمانے میں دستیاب علوم میں زمین کے ساکن ہونے کا نظریہ رائج تھا، اس لیے ان علماء کے لیے ممکن نہ تھا کہ زمین کی حرکت کو ان آیات سے ثابت کرسکیں۔ بعد ازاں جب سائنسی علم ترقی کرگیا اور یہ حقیقت تسلیم کرلی گئی تو  یہ اس عہد کے علما کی ذمہ داری تھی کہ وہ ان نظریات کو جدید دستیاب علوم کی صورت میں پرکھتے۔ امام احمد رضا خان کی اس کتاب کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ گمان غالب ہوتا ہے کہ امام صاحب کی یہ کتاب سائنسی سے زیادہ سیاسی نوعیت کی حامل ہے۔ امام صاحب نے اس میں عقلی استدلال پر زور دیا ہے، یا ہم کہہ سکتے ہیں کہ امام صاحب نے اس کتاب میں اس وقت کے ہندوستانی ذہن کو الجھانے اور استدلال کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی ہے، جو  شاید علی گڑھ کی تحریک (جس میں امام کے بقول،  سائنس کے لیے مذہبی نظریات کی دھجیاں بکھیری گئیں) سے عوام الناس کو ہٹانے  اور متنفر کرنے کی ایک کوشش نظر آتی ہے۔ کیوں کہ کتاب کی اکثر دلیلیں اس وقت کے دستیاب علم سے مکمل بے بہرہ محسوس ہوتی ہیں جو کہ امام احمد رضا جیسے باخبر شخص سے قرین قیاس نہیں ہے۔ ذیل میں کتاب کا ایک مختصر بیانیہ دہرانے کی کوشش کی جائے گی۔

مقدمہ:

مقدمہ میں امام نے نیوٹن کے نظریہ کشش ثقل پر عقلی استدلال قائم کیا ہے ، اور جاذبیت  اور نافریت ( اٹریکشن اور رزسٹنس) کے نظریہ پر تنقید قائم کی ہے۔ امام کا مؤقف ہے کہ نیوٹن کے ان نظریات میں خامیاں ہیں جن کو انھوں نے جیومیٹریکل ساختوں کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے یہ استدلال قائم کیا ہے کہ، جاذبیت اور نافریت کی قوتوں کا انحصار اجسام کے ایک دوسرے سے فاصلے پر منحصر ہے۔ امام نے لہروں کے مدو جزر کو بطور دلیل استعمال کیا ہے۔  امام نے یہ استدلال قائم کرنے کی کوشش کی ہے کہ نفرین کی قوت (فورس آف رزسٹنس) کے لیے دلائل ناکافی ہیں۔ اگر یہ قوت نافرہ موجود ہی نہیں ہے تو حرکت زمین از خود باطل ثابت ہوجاتی ہے کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ سورج کی کشش ثقل زمین کو اپنے محور میں گھماتی ہے، کسی محور کے گرد گھومنے والے جسم میں سینٹریفیوگل فورس پیدا  ہوتی ہے جو اسے اپنے ایکسز کے گرد قائم رکھنے میں مدد گار ہے۔ اگر یہ قوت محور کے مرکز کی کشش ثقل سے زیادہ ہو تو جسم اس دائرے سے آزاد ہوجاتا ہے۔ اب امام کا یہ استدلال ہے کہ یہ سینٹریفیوگل فورس جو ایک قوت نافرہ ہے اپنا وجود نہیں رکھتی ہے۔ تو زمین کو اس کے مدار میں رہنے کے لیے قوت نافرہ کہاں سے مل رہی ہے؟

اگر ہم یہ قیاس کریں کہ سورج زمین کو اپنی طرف کھینچتا ہے، اور کوئی سیارہ اپنی کشش سے زمین کو یہ قوت نافرہ فراہم کرتا ہے تو اس سیارہ کو اس کے مدار میں رکھنے کے لیے قوتِ نافرہ کہاں سے مل رہی ہے؟ یہ سب استدلال ہمیں سیاروں کے ایک لامتناہی سلسلے کی طرف لے جائے گا، جس میں ہر سیارہ دوسرے سیارہ کو اس کے مدار میں رکھ رہا ہے جو کہ ممکن نہیں ہے۔ اس سب سے امام نے یہ استدلال کیا کہ  زمین کی حرکت از خود سائنس کی رو سے باطل ہے، کیوں کہ اس کے لیے سائنسی دلائل ناکافی ہیں۔

نافریت کا رد اور بطلان حرکت زمین پر بارہ دلیلیں:

اس  فصل میں امام نے یہ استدلال قائم کیا ہے کہ نافریت کی قوت ایک باطل خیال ہے ۔اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر ہم مان لیں کہ جاذبیت اور نافریت ایک دوسرے کی ضد ہیں، تو زمین پر لگنے والی ان مخالف قوتوں کے باعث زمین کو ساکن ہونا چاہیے کیوں کہ یہ دونوں قوتیں زمین کو ایک دوسرے کے متضاد کھینچ رہی ہیں، اگر ان سے حرکت پیدا ہونا مان لیا جائے تو اس کا تعین کیوں کر کیا جا سکتا ہے کہ یہ حرکت کس سمت میں ہوگی؟؟ کیوں تمام حرکات ایک ہی سمت میں ہیں؟ جب کہ سائنس ان کو ایک حرکت میں رکھنے والی ذات خداوندی کی منکر ہے؟ نیز یہ کہ ایسی حرکت جس میں ہمیشہ جسم کو لائن آف ٹینجنٹ کے گرد گھومنا  چاہیے ایک دائرہ بنائے گا۔ جب کہ سائنس مانتے ہے کہ زمین کا مدار گول نہیں بلکہ بیضوی ہے۔ اسی طرح یہ استدلال کہ قوت نافرہ و جاذبہ (اٹریکشن اور رزسٹنس ) کی بنا پر اجسام میں ایک حرکت پیدا ہوتی ہے از خود اس خیال کو  رد کرتا ہے کہ زمین کا فاصلہ سورج سے یکساں نہیں رہتا بلکہ بڑھتا اور گھٹتا رہتا ہے، فاصلہ کم ہونے سے جب قوت جاذبہ بڑھتی ہے تو رد عمل میں قوت نافرہ بھی بڑھنی چاہیے، جس سے زمین کی رفتار کم یا زیادہ ہو جب کہ سائنس کے نزدیک زمین کی رفتار 19 کلومیٹر فی سیکنڈ پر یکساں ہے۔ اس لیے مصنف کا خیال ہے کہ قوت نافرہ کے وجود کے لیے دستیاب شواہد ناکافی ہیں۔

اختتامیہ:

غور طلب بات یہ ہے کہ  اس کتاب کے شائع ہونے تک میکس پلانک کی کوانٹم تھیوری اور آین سٹائن کا  نظریہ اضافت امام کی نظر سے نہیں گزرا ۔ مزید یہ کہ کتاب کے مطالعے کے  دوران احساس ہوتا ہے کہ امام نے دقیق سائنسی اصطلاحات کو بخوبی استعمال کیا مگر بنیادی نوعیت کی سائنسی  ترکیبات، جیسے کثافت، رگڑ (فرکشن) کو مکمل نظر انداز کیا۔ اور استدلال قائم کرتے ہوئے اس سے صرفِ نظر برتا۔ مثال کے طور پر امام زمین کی جاذبیت کے رد میں دلیل استعمال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ " اگر لکڑی اور لوہا پانی میں پھینکا جائے تو لوہا جلد زمین سے ٹکرائے گا۔ جب کہ جاذبیت کے اصول کے تحت ان دونوں کو یکساں ٹکرانا چاہیے۔" اس دلیل میں امام نے کثافت کے اصول کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک استدلال قائم کیا ہے۔ اسی طرح امام کے متعدد استدلال قابل جرح ہیں جو کہ ناقدین اور سائنسی علوم پر تحقیق کرنے والوں کا کام ہے۔ باوجود ان سب کمزوریوں کے ،یہ کتاب ذہن کو سوچنے کی صلاحیت دیتی ہے۔ اور تشکیک میں پڑنے کا  عادی بنانے اور چیزوں کو بنا استدلال قبول کرنے کی بجائے ان پر جرح کرنے  کی عادت ڈالنے کی صلاحیت رکھتی ہےاور  قاری کی سوچ کو ایک  نیا  زاویہ عطا کرتی ہے۔ یہ کتاب مشکل اصطلاحات اور دقیق اردو پر مشتمل ہے جو  عام قاری کے لیے بہت سی مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ اس لیے میری تجویز یہ ہے کہ اس کا انگریزی ترجمہ پڑھا جائے۔

متعلقہ عنوانات