تُو صاحبِ منزل ہے کہ بھٹکا ہوا راہی!!!

قصہ کچھ یوں ہے کہ جامعہ میں ہمارا پہلا ہفتہ تھا، میں نے ایک تحریر لکھی اور فیس بک پر اپلوڈ کردی۔ شام کو  سو کر اٹھا، فیس بک کھولی تو سامنے میری ہی تحریر ایک ہم جماعت نے کاپی پیسٹ کی ہوئی تھی اور نیچے ہم جماعت خواتین کی تعریفوں کے انبار تھے۔ مجھے یہ ماننے میں کوئی جھجھک نہیں کہ باوجود زہد و خشکی اور انتہائی سختی کے خواتین کے وہ تعریفی کمنٹ دیکھ کر مجھے شدید دکھ ہوا، دل کِرچی کِرچی ہوگیا کہ یار! "محنتاں ساڈیاں تے تعریفاں تواڈیاں" اس دن میں نے یہ فیصلہ کیا کہ اپنی ہر تحریر کے نیچے قلمی نام ضرور استعمال کروں گا۔

 

ساتھی طلباء کے پرچوں سے کاپی پیسٹ یعنی نقل ، بد دیانتی (کرپشن) کی وہ اولین شکل ہے جو ہماری پروفیشنل لائف تک جاتے جاتے روپے اور پیسوں کی کرپشن میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ دو یا تین نمبرز کا فائدہ حاصل کرنے کے لیے نا جائز ذرائع کا استعمال آہستہ آہستہ پیسوں کے حصول کے لیے ناجائز ذرائع کے استعمال میں بدل جاتا ہے اور ہمیں پتا بھی نہیں چلتا۔

 

 میں  اکثر سوچتا ہوں کہ کوئی کیسے اسی پیسے کو لوٹ سکتا ہے جسکا وہ محافظ بنایا گیا ہے؟ کوئی کیسے اپنے ہی پیسے لوٹ سکتا ہے؟

 (قوم کا حصہ ہونے کی بنا پر اسکے ٹیکس کا پیسہ بھی قومی خزانے میں شامل ہے)، کیا آپ بھی یہی سوچتے ہیں؟

 

جامعہ میں کئی برائیاں ہوسکتی ہیں مگر اسمیں ایک خوبی ہے کہ یہ ہر سوال کا جواب دے دیتی ہے، اسکی ساخت بلکل ہمارے معاشرے کی ساخت جیسی ہے، معاشرے سے کیے گئے سوالات کا جواب آپ کو جامعہ کے کسی کونے سے مل ہی جاتا ہے، مجھے بھی اوپر پوچھے گئے دو سوالوں کا جواب جامعہ سے ملا۔

 

مشاہدے میں آیا ہے کہ اکثر و بیشتر ہم جامعات میں اپنے پیسے ڈال کر کوئی پروگرام (ویلکم و فئیر ویل یا کوئی سیمینار) وغیرہ کا انتظام کرتے ہیں، اسکے منتظمین بھی ہم خود ہی ہوتے ہیں۔ پیسہ بھی ہمارا انتظام بھی ہمارا۔ مگر منتظم طلباء انھی پیسوں میں سے مختلف مدات میں کچھ پیسے خرد برد کردیتے ہیں۔ ہماری کثیر اکثریت امتحانات میں زیادہ نمبر لینے کے لیے غیر اخلاقی ذرائع جیسے نقل وغیرہ کو استعمال کرتے ہیں۔ وقتی فائدہ کے کیے اس تھوڑی سی بے ایمانی کو ہم برا نہیں سمجھتے۔ یہی عادت راسخ ہو کر بڑی برائی بن جاتی ہے اور ہم کرپشن کی دلدل میں پھنستے رہتے ہیں

 

 

ہم سب بھی طالب علم ہیں، ہمیں سوچنا چاہیے کہ کہیں ہم کرپٹ تو نہیں!!

کہیں ہم دو تین نمبرز کے لیے، دوستوں کے ساتھ پیزا برگر کھانے کے لیے، بہت چھوٹے سے فائدے کے لیے بے ایمانی کے مرتکب تو نہیں ہورہے؟

ہم سب کہہ دیتے ہیں کہ ایک سوال دیکھنے سے کیا ہو جاتا ہے؟ دو نمبر نقل کرنے سے کیا ہو جاتا ہے؟ ایونٹ سے ذرا سے پیسے نکال لینے سے کیا فرق پڑتا ہے؟؟ یہ تو بہت چھوٹی سی بات ہے۔

لیکن کل جب بچوں کی فیس ادا کرنا ہوگی، اماں ابا کی دوائی  خریدنا ہو گی، گاڑی اور گھر لینا ہوگا۔ کل جب بڑی بات ہوگی ، کیا ہم خود کو یہ ضمانت دے سکتے ہیں کہ ہم جو چھوٹی سی باتوں کے لیے بددیانتی کر بیٹھتے ہیں ان بڑی باتوں کے لیے نہیں کریں گے؟؟؟

 

آج ہماری ضروریات محدود ہیں تو ہماری بے ایمانی محدود ہے، کل ہماری ضروریات بڑھ جائیں گی، بد عنوانی  یا بے ایمانی کے مواقع بڑھ جائیں گے،کیا ایسے وقت میں ہم خود کو روک سکیں گے؟؟؟

 

کیا آپ خود کی  ضمانت، خود کو ہی  دے سکتے ہیں؟؟؟

ذرا سوچیے!!!