زندگی تھوڑی سی مہلت تو کبھی دی ہوتی

زندگی تھوڑی سی مہلت تو کبھی دی ہوتی
زندہ رہنے کی اجازت تو کبھی دی ہوتی


چاند نے ہاتھ مرا پیار سے تھاما ہوتا
چاندنی چھونے کی مہلت تو کبھی دی ہوتی


کتنے کھوئے ہوئے لمحوں کا خیال آتا ہے
ڈھونڈنے کی کوئی رخصت تو کبھی دی ہوتی


آپ کے شکوۂ بے جا کا گلہ کیا کرنا
آپ نے اپنی محبت تو کبھی دی ہوتی


کوئی اظہار وفا آپ سے کیسے کرتا
بات کہہ دینے کی جرأت تو کبھی دی ہوتی


اپنی ہی آنچ میں جلنے کے لئے اس دل کو
شعلۂ عشق کی حدت تو کبھی دی ہوتی


کاغذی پھول نگاہوں کو بھلے ہوں لیکن
ان گلوں کو کوئی نکہت تو کبھی دی ہوتی


جذب کا رقص کھلے عام نہیں ہے اچھا
کرب احساس کو خلوت تو کبھی دی ہوتی


سخت لہجوں کے رویوں کو بدلنے کے لئے
نورؔ جذبوں کو نزاکت تو کبھی دی ہوتی