یہ ازخود رفتگی بالکل نئی تھی
یہ ازخود رفتگی بالکل نئی تھی
کہ تفسیر حدیث دل نئی تھی
سرابوں کی سرشت نارسائی
تمنا کے لئے منزل نئی تھی
وہ پہلے بھی جنوں سے آشنا تھے
یہ گرمی خون میں شامل نئی تھی
نیا تھا درد کے رشتوں سے ناطہ
نئی کونپل تھی آب و گل نئی تھی
کنارے موج سے ملتے رہے تھے
مگر اب مستیٔ ساحل نئی تھی
نئے جلوے فروزاں اس قدر تھے
نگاہوں کے لئے مشکل نئی تھی
وفا کی راہ میں ہر دو قدم پر
کہیں دیوار اک حائل نئی تھی
شکستہ پر تھے خوشیوں کے عنادل
دکھوں کے پیر میں پائل نئی تھی
اندھیرے خوف جس سے کھا رہے تھے
تمناؤں کی وہ جھل مل نئی تھی