اجالے کی لکیر

اک نئی صبح درخشاں کا روپہلا آنچل
اپنے ہم راہ لئے عزم جواں کی تنویر
ساقیٔ وقت کے رخسار پہ لہرایا ہے
یہ ہے تاریک فضاؤں میں اجالے کی لکیر


راستے پر کئی خورشید نئے جل اٹھے
روشنی دیکھیے تا حد نظر پھیل گئی
آسمانوں کو زمینوں کو نئے رنگ ملے
اور فضا نکہت و رعنائی سے معمور ہوئی


ہر نفس اپنا امنگوں کی ہے تفسیر نئی
آج ہر سانس سے بے باک ارادے ہیں عیاں
اب کے تزئین چمن ہوگی لہو کی سرخی
فصل گل اب کے نئے جلوے بکھیرے گی یہاں


دوستو ہم نفسو جد و جہد تیز کرو
بے نواؤں کے لئے طرز فغاں بن جاؤ
پھر سے قندیل وفاؤں کی جلاؤ ہمدم
آج احساس کے آئینوں کو پھر چمکاؤ


وقت کی گرد چھٹے گی تو بعنوان سحر
منزل شوق کی راہوں کا تعین ہوگا
اک نئے دور کی تعمیر کریں گے ہم سب
چاند تاروں سے سجا اپنا نشیمن ہوگا