رابطہ

ایک رجعت کے مرحلے میں رہوں
میں پلٹنے کے مشغلے میں رہوں
یہ تقاضہ تھا جانے والوں کا
بچھڑی نسلوں سے رابطے میں رہوں


میں کڑی ہوں گئے زمانوں کی
شہر ماضی کے خاک دانوں کی
راکھ ہوتے ہوئے جہانوں کی
بھولے بسرے ہوئے فسانوں کی


سہہ سکے گا نہ اب مزاج اپنا
نیش وحشت کی درد انگیزی
اپنی اقدار سے تصادم خیز
درد احساس کی نمو خیزی


ہم کو جو مل گیا تسلسل سے
نذر طوفان سنگ تو نہ کریں
اپنے اسلاف سے جو فیض ملا
اس کو وحشت برنگ تو نہ کریں


ہمیں ناموس کی وراثت کو
شعلۂ جاں بنا کے رکھنا ہے
اپنے ماضی سے رابطے کے لئے
اپنا ورثہ بچا کے رکھنا ہے


اپنے مٹتے ہوئے حوالوں کو
آنے والو بچا کے رکھنا ہے
ہم کو اب آس کے جزیروں میں
کشتیوں کو جلا کے رہنا ہے


ورنہ یہ ربط ٹوٹ جائے گا
اور تسلسل بھی چھوٹ جائے گا