اپنے جذبے نثار مت کرتے
اپنے جذبے نثار مت کرتے
وقت کا اعتبار مت کرتے
داغ زخموں کے ان گنت ہوں گے
آبلوں کا شمار مت کرتے
درمیاں فاصلوں کے صحرا ہیں
اب مرا انتظار مت کرتے
اجنبی دیس اڑ گئے پنچھی
اپنے بچوں سے پیار مت کرتے
نفرتوں کے قمار خانے میں
پیار کا کاروبار مت کرتے
پیر تو پتھروں کے عادی ہیں
طے کوئی سبزہ زار مت کرتے
اک مرے جرم بے گناہی کا
تذکرہ بار بار مت کرتے
ظلم تاریک استعارہ ہے
صاحب اقتدار مت کرتے
نورؔ اس کوچۂ ملامت میں
احترام بہار مت کرتے