زندگی کے غم بھلانے میں لگے ہیں
زندگی کے غم بھلانے میں لگے ہیں
موت کو آساں بنانے میں لگے ہیں
خار سے ہمت نہیں ہوتی کسی کی
تتلیوں کو سب ستانے میں لگے ہیں
آنکھ کی بینائی جاتی جا رہی ہے
ہم یہاں چشمے بنانے میں لگے ہیں
پیڑ کب تک ہے نہیں معلوم لیکن
سب پرندے گھر بسانے میں لگے ہیں
گاؤں میں ماں باپ بوڑھے ہو رہے ہیں
ہم یہاں تنخواہ بڑھانے میں لگے ہیں
آپسی رشتے بگڑتے جا رہے ہیں
لوگ موبائل چلانے میں لگے ہیں
سب پرانے پیڑ کٹتے جا رہے ہیں
لوگ فرنیچر بنانے میں لگے ہیں
گلیشیئر سارا پگھلتا جا رہا ہے
ہم مگر اے سی چلانے میں لگے ہیں
بات تو دنیا بنانے کی ہوئی تھی
ہم نہ جانے کیا بنانے میں لگے ہیں