جب بھی وہ ملنے کا وعدہ کرتا ہے
جب بھی وہ ملنے کا وعدہ کرتا ہے
دل میرا زوروں سے دھڑکا کرتا ہے
جو کچھ بھی ہم نیچے والے کرتے ہیں
سب کچھ اوپر والا دیکھا کرتا ہے
مالی کی قسمت بھی کیسی قسمت ہے
غیروں کے پیڑوں کو سینچا کرتا ہے
باہر سب سے ہنس کر ملتا جلتا ہے
لیکن گھر میں آ کر جھگڑا کرتا ہے
ہر بچے کو شاباشی دیتا ہے وہ
بس اپنے بچوں پر غصہ کرتا ہے
سچ بولوں تو مجھ کو ایسا لگتا ہے
میرا سایہ میرا پیچھا کرتا ہے
سنتے ہیں وہ آنے جانے والوں سے
بس میرے بارے میں پوچھا کرتا ہے
کیول میری غلطی ہو تو مانوں بھی
وہ بھی تو مڑ مڑ کر دیکھا کرتا ہے
ہم بھی اس سے ایسی مستی کرتے ہیں
جیسی مستی سوئی سے دھاگا کرتا ہے