خزاں سے مانوس ہو چکے ہیں نہیں خبر کچھ بہار کیا ہے
خزاں سے مانوس ہو چکے ہیں نہیں خبر کچھ بہار کیا ہے
تڑپ کی لذت ہے جن کو حاصل نظر میں ان کی قرار کیا ہے
بچے گا کب تک غریب انساں حوادث گردش زماں سے
ہوا کے جھونکوں میں جل سکے گا چراغ یہ اعتبار کیا ہے
قریب ہو کر بھی دور ہیں جیسے ایک دریا کے دو کنارے
یوں ہی گلستاں میں رہ کے بھی ہم نہیں ہیں واقف بہار کیا ہے
چمن کے ہو کر جو جی رہے ہیں خزاں ہے رشک بہار ان کی
پرستش گلستاں ہی ٹھہری تو فرق غنچہ و خار کیا ہے
نشاط وصل و شراب دیدار پر جو کم ظرف مطمئن ہیں
انہیں کوئی کس طرح بتائے تعیش انتظار کیا ہے
خدا را الطافؔ مجھ سے احباب میری تنہائیاں نہ چھینیں
غموں کے ہوتے ہوئے کسی کو ضرورت غم گسار کیا ہے