آ چل کے بسیں ہمدم دیرینہ کہیں اور
آ چل کے بسیں ہمدم دیرینہ کہیں اور
میں ڈھونڈھ نکالوں گا فلک اور زمیں اور
بچتی ہوئی نظروں سے ٹپکتے ہیں فسانے
ایجاد تکلم کی ہوئی طرز حسیں اور
گلہائے تبسم پہ نظر ڈالنے والے
ان ہونٹھوں میں پنہاں ہیں کئی خلد بریں اور
ضو بار و درخشاں ہے یہ انوار خودی سے
سجدوں کی سیاہی کو ہے مطلوب جبیں اور
اک اشک میں تبدیل ہوا اپنا سراپا
کچھ مانگ لے الفت سے مری جان حزیں اور
زلفوں کو ذرا اور بھی آنکھوں پہ جھکا دو
میخانے سے بادل کو کرو کچھ تو قریں اور
الطافؔ مجھے جس نے دیا درد محبت
اس آنکھ میں کیا ایسی کوئی چیز نہیں اور