زندگی چونچلے نہ کر ہم سے
زندگی چونچلے نہ کر ہم سے
دیکھ پچھتائے گی تو ڈر ہم سے
زخم خردوں کے جانے سے پیدا
ہو گیا ہے خلا تو بھر ہم سے
لوگ سرہانوں میں اڑسنے لگے
پوچھ مت حال بال و پر ہم سے
گر گئی روشنائی کی بوتل
تیرا کاغذ ہوا ہے تر ہم سے
ایک دن ہانکا تھا پرندے کو
ابھی ناراض ہے شجر ہم سے
رب رقیبوں کو بخشے تو بخشے
نہیں ہوتا ہے درگزر ہم سے
زندگی کا معاملہ ہے یہی
ہم سفر سے ہیں اور سفر ہم سے
شعر لکھ کے شفقؔ یوں لگتا ہے
ہو گیا زیر اک زبر ہم سے