میں نے دھڑکن سنی شجر کی رات

میں نے دھڑکن سنی شجر کی رات
نیند پتوں نے بے خطر کی رات


اس نے رخصت کبھی نہ لینی تھی
وہ بھی مارا گیا سفر کی رات


بھونکتی رہتی ہے ستاروں پر
میرے اندر کسی کھنڈر کی رات


میں نے دیوانگی میں پھاڑے ہوئے
خیمۂ خاک میں بسر کی رات


دن تو لیکن کا ڈھل گیا صاحب
سامنے ہے اگر مگر کی رات


میں ہوں سیارۂ فلک بیزار
مجھ میں دن ہے کہاں کدھر کی رات


کھولتے لاوے پر گزاری ہے
ایک بجھتے ہوئے شرر کی رات


سنی دستک شفقؔ نہ خوابوں کی
ہائے مجھ شخص بے خبر کی رات