زندگی بس مسکرا کے رہ گئی

زندگی بس مسکرا کے رہ گئی
کیوں ہمیں ناحق رجھا کے رہ گئی


وقت نے اپنی روش بدلی نہیں
آدمیت غل مچا کے رہ گئی


زندگی گھبرا گئی حالات سے
بے بسی اپنی جتا کے رہ گئی


دل کی حسرت آج تک نکلی نہیں
دل ہی دل میں گھٹ گھٹا کے رہ گئی


حسن والوں کی جسارت کیا کہیں
شرمساری سر جھکا کے رہ گئی


مڑ کے وہ ہم سے مخاطب کیا ہوئے
ایک دنیا منہ بنا کے رہ گئی


وہ جدائی کی گھڑی نامیؔ کہ بس
زندگی ٹسوے بہا کے رہ گئی