گل بھی مانند خار ہیں اب تو

گل بھی مانند خار ہیں اب تو
ننگ فصل بہار ہیں اب تو


ہم وطن دل فگار ہیں اب تو
سب کے سب شعلہ بار ہیں اب تو


جن کے دم سے بہار آئی تھی
وہ بھی آنکھوں میں خار ہیں اب تو


جن پہ دار و مدار گلشن تھا
وہ سیاست شعار ہیں اب تو


کیا ابھی دیر ہے قیامت میں
ہم بہت بے قرار ہیں اب تو


ایک دو تین چار ہو تو کہیں
مشکلیں بے شمار ہیں اب تو


بھیک جو مانگتے تھے سڑکوں پر
برسر اقتدار ہیں اب تو


وہ جو گلشن کو لوٹتے ہی رہے
صاحب لالہ زار ہیں اب تو


دل کو امن و اماں نصیب نہیں
خوشیاں ساری فرار ہیں اب تو


جو شریک خزاں کبھی نہ رہے
وہ شریک بہار ہیں اب تو


اپنی من مانی کس لیے نہ کریں
صاحب اختیار ہیں اب تو


آپ کے دن گئے خلیل میاں
فاختائیں فرار ہیں اب تو


جو کبھی ننگ قوم تھے یارو
باعث افتخار ہیں اب تو


سوچنے کا مقام ہے نامیؔ
خار بھی مشک بار ہیں اب تو