خار تو پھر بھی خار ہوتے ہیں

خار تو پھر بھی خار ہوتے ہیں
گل بھی بے اعتبار ہوتے ہیں


غم سے جو ہمکنار ہوتے ہیں
بس وہی غم گسار ہوتے ہیں


جن کے پیچھے نہ کوئی مطلب ہو
رشتے وہ خوش گوار ہوتے ہیں


دھوکا کھاتے ہیں بس وہی اکثر
جو بہت ہوشیار ہوتے ہیں


حاسدوں کے کرم ہی کافی تھی
دوست کیوں برق بار ہوتے ہیں


جن کی گھٹی ہی میں ہو بے شرمی
وہ کہیں شرمسار ہوتے ہیں


ایسے پھولوں کا کیا کریں نامیؔ
جن کے پہلو میں خار ہوتے ہیں