زندگی باندھی گئی ہے جب ہوا کی ڈور سے
زندگی باندھی گئی ہے جب ہوا کی ڈور سے
میں نے طوفاں کو دبا رکھا ہے اپنی اور سے
روز و شب کی آڑی ترچھی سی کئی پرچھائیاں
شام جیسے بیٹھی ہو کاجل لگا کر بھور سے
تھرتھراتے ہونٹ پر کچھ ٹوٹتے الفاظ ہیں
دل دھڑکتا جا رہا ہے اور بھی کچھ زور سے
سرخ آنکھوں کی لکیروں نے نچوڑا دل کا خوں
ریت کے ذروں کو سورج دیکھتا ہے غور سے
ظلم کی طاقت الگ ہے صبر کی طاقت الگ
درد کا رشتہ وفا سے ہے ستم کا جور سے
کون سنتا ہے کسی کی سانس کے نغموں کی دھن
سب نے اپنا راگ چھیڑا اپنے اپنے طور سے
وقت گردش کر رہا ہے سوئی کی اک نوک پر
ہم بھی لڑ کر جی رہے ہیں کیسے نازک دور سے