عجیب شخص ہے تیور ہے باغیانہ سا
عجیب شخص ہے تیور ہے باغیانہ سا
بنائے رکھتا ہے سولی پہ آشیانہ سا
عجیب شوق ہے شوق وصال بھی اس کا
گلال چہرہ تبسم ہے فاتحانہ سا
نگاہ ناز لیے خواب خواب صورت ہے
ہر آدمی ہے یہاں گمشدہ فسانہ سا
تصورات کے بت ٹوٹتے بکھرتے ہیں
ہر اک جمود پہ لگتا ہے تازیانہ سا
تڑپتی مچھلی کی آنکھیں پھڑک گئی سی ہیں
غضب کا سادھ رہا ہے کوئی نشانہ سا
زمانہ ساز قلندر ہے کس خیال میں گم
اور اس کے زیر قدم ہے پڑا زمانہ سا
جھکائے رکھتی ہے اس کے کلام کی قوت
لباس ڈال رکھا ہے پھٹا پرانا سا
کسی نے موت کی پرچی پہ لکھ دیا الفتؔ
یہ زندگی سے تعارف ہے غائبانہ سا