سانس چڑھتی ہوئی اترتی ہوئی

سانس چڑھتی ہوئی اترتی ہوئی
زندگی ٹوٹتی بکھرتی ہوئی


ہر طرف موت ہی کی دستک ہے
دل کی آواز کیوں ہے مرتی ہوئی


گہری تاریکیوں میں جگنو سی
آنکھ کھلتی ہے اپنی ڈرتی ہوئی


کلمۂ حق لبوں پہ جاری رکھ
روشنی سی ہو کچھ ابھرتی ہوئی


کیا قیامت کا دن نکل آیا
جلتے سورج سے گرم دھرتی ہوئی


صبر صورت بھی پھول جیسی ہے
دیکھیے آگ میں نکھرتی ہوئی


اک تجلی ضرور آئے گی
دھند کے پھیلے پر کترتی ہوئی


پیاری پیاری سی بات الفت کی
فکر کے سارے زخم بھرتی ہوئی