ہر صدا سوئے فلک عرش سے ٹکراتی ہے
ہر صدا سوئے فلک عرش سے ٹکراتی ہے
دل کی آواز بہت دور تلک جاتی ہے
کس قدر آگ ہے اس عشق کی چنگاری میں
جب بھڑکتی ہے تو پتھر کو بھی پگھلاتی ہے
اس قدر دھول اڑائی ہے غم دنیا کی
گردش فکر بھی آتے ہوئے شرماتی ہے
میں نے دیکھا ہے کئی مرد قلندر کی حیات
تاج شاہی کی انا پاؤں سے ٹھکراتی ہے
جسم میں خون ابلتا ہے کسی کی خاطر
روح بے تاب ہے بے چین ہے بل کھاتی ہے