کتنی مجبور ہے مت پوچھئے حالت میری

کتنی مجبور ہے مت پوچھئے حالت میری
جاگتی آنکھ میں سو جاتی ہے قسمت میری


رات کے پچھلے پہر فکر سے لڑتے لڑتے
آج پھر ہار گئی نیند سے راحت میری


آرزو عشق وفا لطف و کرم بے معنی
ہائے کس کام کی ہے دوستو دولت میری


سرخ رو ہونے ہی والی ہے خطائے گندم
اٹھنے والے ہے پشیمانی سے شہرت میری


ڈھونڈتے ڈھونڈتے پہنچی ہے تری کلیوں تک
خاک در در کی اڑاتی ہوئی الفت میری