زندگانی جب کہانی ہو گئی

زندگانی جب کہانی ہو گئی
وہ کہانی خود پرانی ہو گئی


زندگی نے جو مسرت پائی تھی
وہ خوشی آنکھوں کا پانی ہو گئی


جان دی دل دے دیا سودا کیا
بات یہ ساری زبانی ہو گئی


بات اس نے راستے میں جب نہ کی
میں یہ سمجھا وہ سیانی ہو گئی


داغ دامن پہ ہمارے جو لگے
کیا یہ الفت کی نشانی ہو گئی


ان کے آنے سے ہوا مسرور میں
زندگی کی مہربانی ہو گئی


عشق نے پھیرا تصور کو مرے
یہ زمین اب آسمانی ہو گئی