نہ سنا اب مجھے تو افسانہ (ردیف .. ا)

نہ سنا اب مجھے تو افسانہ
جل اٹھے نہ کہیں یہ پروانہ


راتیں کاٹیں ہیں کروٹیں لے کر
عشق کرنے کا ہے یہ ہرجانا


آگ کا دریا پار کرنا ہے
عشق کی راہ سے گزر جانا


ان کے آنے سے چین آتا ہے
ان کا جانا ہے جان کا جانا


قتل کرنا نہیں ہے منصوبہ
ان کی خواہش ہے مجھ کو تڑپانا


مانتا ہی نہیں کبھی میری
کتنا مشکل ہے دل کو سمجھنا


حرج ان سے نہیں ہے ملنے میں
دل کا لیتے ہیں پر وہ ہرجانہ


یہ ادائیں ہیں یار کے فتنے
حیا شوخی غضب کا اترانا