کہنے کو تو ہے کیا نہیں
کہنے کو تو ہے کیا نہیں
کیوں ہے خلش پتا نہیں
مجھ سے ہوئے وہ کیوں خفا
ان سے مجھے گلا نہیں
جس کی تھی ہم کو جستجو
کیوں وہ ہمیں ملا نہیں
پھر بھی سزا مجھے ملی
جب کہ میری خطا نہیں
الجھا ہوں اتنا عشق میں
مجھ کو مرا پتا نہیں
یوں تو بہت ہیں راحتیں
غم کی مرے دوا نہیں
کہنے کو تو ہیں دور وہ
دل سے مگر جدا نہیں
گردش میں ہوں گھرا ہوا
آدمی میں برا نہیں