یاد کر کر کے آہیں بھرتے ہیں
یاد کر کر کے آہیں بھرتے ہیں
ان کے کوچے سے جب گزرتے ہیں
عشق تو آپ ہی سے کرتے ہیں
پھر بھی اظہار سے وہ ڈرتے ہیں
زخم الفت مگر نہیں بھرتے
چارہ گر تو علاج کرتے ہیں
آئنہ ان میں ڈوب جاتا ہے
آئنے میں جو وہ سنورتے ہیں
میری فطرت میں ہے وفاداری
اور مجھ سے گلا وہ کرتے ہیں
عشق میں ہائے ہے عجب حالت
ہم نہ جیتے ہیں نہ ہی مرتے ہیں
روبرو جب بھی ہم نہیں ہوتے
ان کے گیسو کہاں سنورتے ہیں
ہم مسافر ہیں راہ الفت کے
راستے میں کہاں ٹھہرتے ہیں