ضدی بچہ
یہ اک بچے کا قصہ ہے
یہ بچہ تھا بڑا ضدی
نتیجہ یہ ہوا ضد کا
یہ عادت پڑ گئی اس کی
جو سیدھی بات بھی کہتے
سمجھتا اس کو وہ الٹی
وہ کہتا گرم کو ٹھنڈا
وہ کہتا ٹھنڈ کو گرمی
وہ کہتا فرش کو تکیہ
وہ کہتا میز کو کرسی
وہ کہتا ہیٹ کو اچکن
وہ کہتا کوٹ کو صدری
وہ کہتا حوض کو دریا
وہ کہتا جھیل کو ندی
وہ کہتا گوشت کو روٹی
وہ کہتا دودھ کو پانی
وہ کہتا مرچ کو شلغم
وہ کہتا پیاز کو مولی
وہ کہتا بھیڑ کو گھوڑا
وہ کہتا بیل کو بکری
کھلاتے اس کو گر لڈو
وہ کھانا چاہتا برفی
منگاتے اس سے گر آلو
تو دیتا لا کے وہ گوبھی
غرض میں کیا کہوں نیرؔ
تھی بات اس کی ہر اک اوندھی