ضدی اڑیل ہے خرافات پہ رک جاتی ہے (ردیف .. ی)
ضدی اڑیل ہے خرافات پہ رک جاتی ہے
سوچ اس شخص کے حالات پہ رک جاتی ہے
عشق مہلت ہی نہیں دیتا جہاں داری کا
ہر تمنا تو اسی ذات پہ رک جاتی ہے
اشک تھم جاتے ہیں بدلے ہوئے موسم کے سبب
اور بارش کبھی جذبات پہ رک جاتی ہے
بھائی کچھ ضبط سکھا دوسرے گھر جائے گی
تیری بیٹی تو سوالات پہ رک جاتی ہے
زندگی کو کبھی دے دیتی ہوں چوکھٹ پہ جگہ
یہ بھکارن اسی خیرات پہ رک جاتی ہے
میرے اشعار کا معیار ہی کم ہے شاید
اس لیے داد بھی حضرات پہ رک جاتی