خواہشوں کی آڑ میں رتبہ جوانی لے گئی

خواہشوں کی آڑ میں رتبہ جوانی لے گئی
پتھروں کے ڈھیر سے مزدور رانی لے گئی


خواب قصہ چاہتیں دنیا سیانی لے گئی
اور جو باقی تھا تیری لن ترانی لے گئی


چاپلوسی سے مجھے بھی دشمنی مہنگی پڑی
کامیابی کو اڑا کر حق بیانی لے گئی


کون سے فرمان کا قصہ سناتے ہو حضور
بادشہ سے آنکھ میری حکمرانی لے گئی


آپ واپس آ گئے ہیں آپ کا پھر کیا گیا
میری خودداری کو لیکن مہربانی لے گئی


چھوٹی موٹی حسرتوں کو وقت لے کر اڑ گیا
چین سے مرنے کی خواہش زندگانی لے گئی