خواب آنکھوں کی حوالات میں ڈالا گیا ہے
خواب آنکھوں کی حوالات میں ڈالا گیا ہے
نیند کو یوں ہی فسادات میں ڈالا گیا ہے
مجھ کو ہلکی سی تجلی کی جھلک آتی ہے
کہکشاؤں کو تری بات میں ڈالا گیا
یہ کسی نیک صحافی کا ہنر ہے شاید
طنز جی بھر کے سوالات میں ڈالا گیا ہے
اک محبت ہے مری اپنی کمائی ہوئی شے
اور جو کچھ ہے وہ خیرات میں ڈالا گیا ہے
اپنے قدموں کو سنبھلنے کا ہنر سکھلاؤ
کیونکہ پتھر کو مری ذات میں ڈالا گیا ہے
عشق کو چھو کے چمکتی ہے طبیعت جن کی
ان اجالوں کو کسی رات میں ڈالا گیا ہے