ذرے چمک اٹھے ہیں جدھر سے گزر گئے
ذرے چمک اٹھے ہیں جدھر سے گزر گئے
دنیا ٹھہر گئی ہے جہاں تم ٹھہر گئے
کل ہی ملے تھے آج یہ ہونے لگا خیال
دیکھے ہوئے کسی کو مہینے گزر گئے
اے اضطراب شوق برا ہو ترا کہ ہم
جاتے بھلا کسی کی گلی میں مگر گئے
تیرا بھلا ہو تیری محبت کے چار دن
دنیا کسی غریب کی برباد کر گئے
اے رات کیا تجھے بھی کسی کا ہے انتظار
پلکوں سے کیوں یہ ٹوٹ کے تارے بکھر گئے
اک بار پڑھ کے نام ترا آج دفعتاً
دل پر نقوش عہد محبت ابھر گئے
مجبوریوں نے بڑھ کے وہیں دل دبا دیا
نظریں بچا کے پاس سے ان کے گزر گئے
شرما کے ایک بار ذرا مسکرا تو دو
دیکھو گلوں کے باغ میں چہرے اتر گئے
کیا جانے کیا گزرتی کبھی تم سے چھوٹ کر
تم نے نہ کی نباہ یہ احسان کر گئے
دل پر کسی کی چشم عنایت بھی بار تھی
ایسے بھی دن شہابؔ کچھ اپنے گزر گئے