دور تک بھی آہٹ کی آس جب نہ رہ جائے

دور تک بھی آہٹ کی آس جب نہ رہ جائے
کوئی کس طرح دل کو شام غم میں بہلائے


کیا کروں کہاں جاؤں کیسے جی کو بہلاؤں
چاند کی بھی ٹھنڈک جب دل پہ آگ برسائے


جب بھی بزم خوباں میں تم کو بھولنا چاہا
درد کچھ سوا اٹھا یاد تم سوا آئے


حال دل نہ کچھ پوچھو جیسے عمر بھر کوئی
منتظر کسی کا ہو اور نہ وہ کبھی آئے


سوچتے ہوئے جی میں اب کبھی نہ آئیں گے
آج پھر ترے در سے دل شکستہ اٹھ آئے


ترک دوستی پر بھی آج دیکھ کر ان کو
دل پہ عہد الفت کے نقش سب ابھر آئے


یاد آ رہی ہوگی ان کو بھی مری شاید
رات دیر تک مجھ کو یاد وہ شہابؔ آئے