سکوت شب میں تری یاد دل میں یوں آئی

سکوت شب میں تری یاد دل میں یوں آئی
بجا رہا ہو کوئی دور جیسے شہنائی


خود اپنے غم سے لپٹ کر شہابؔ سو جاؤ
تھکی تھکی سی شب ہجر ختم پر آئی


کسی کو رنجش بے جا بھی اب نہیں ہم سے
کھنک کے ٹوٹ گیا ساغر شناسائی


بھلانے والے مرے دن گزر ہی جائیں گے
مگر ڈسے نہ تجھے شام غم کی تنہائی


نہ کوئی وعدہ نہ کوئی یقین تھا پھر بھی
تمہاری راہ میں شب بھر نگاہ دوڑائی


کچھ اس طرح سے اٹھیں میری سمت وہ نظریں
کہ جیسے جاگ اٹھے صبح لے کے انگڑائی


اداسیوں نے کہا اب یہاں نہیں کوئی
کبھی نظر جو ترے بام و در سے ٹکرائی


شہابؔ ہی کا فسانہ نہ سن لیا ہو کہیں
فلک پہ کیوں یہ ستاروں کی آنکھ بھر آئی