وقت سے آگے نکلنا چاہیے
وقت سے آگے نکلنا چاہیے
ہم کو اب پانی پہ چلنا چاہیے
اس سے آگے زندگی آسان ہے
گرنے والوں کو سنبھلنا چاہیے
آنکھ دشت آرزو ہو جائے تو
خواب کو دریا میں پلنا چاہیے
عام ہو کچھ تو یہ کرب آگہی
زخم سے چشمہ ابلنا چاہیے
وہ سنبھل کر دیکھتا ہے آئنہ
آئنے کو بھی سنبھلنا چاہیے
دھوپ میں ہو برف باری تو امیرؔ
سنگ کو شیشہ اگلنا چاہیے