زمیں سے عشق
اے زمیں
نازنیں ماہ جبیں
اے مری گلفام پری
تیرا حسن و شباب کیا کہنا
جسم تیرا ہے جیسے تاج محل
تیرا چہرا شفق کی لالی ہے
تیری آنکھیں ہیں چاند اور سورج
تیرے ابرو ہیں مثل قوس و قزح
شاخ صندل ہیں مرمریں باہیں
تیرے دنداں دمکتے موتی ہیں
تیری پیشانی پہ دمکتا ہوا
کاہکشاں کا جھومر
لب ہیں تیرے گلاب کی پتی
نغمۂ آبشار تیری صدا
تیرا لہراتا ہوا آنچل ہیں
آسماں پر یہ تیرے بادل
اور تیری چال
جیسے لہرائے ندی بل کھائے
اے زمیں
جب تلک نہ موت آئے
کیوں نہ میں ٹوٹ کر تجھے چاہوں