زمین چشم میں بوئے تھے میں نے خواب کے بیج
زمین چشم میں بوئے تھے میں نے خواب کے بیج
مگر اگے تو کھلا وہ تھے اضطراب کے بیج
مجھے ہی کاٹ کے مٹی میں گاڑنا ہوگا
کہ کون دے گا مری جاں تمہیں گلاب کے بیج
زمیں پہ ایسے چمکتے ہیں ریت کے ذرے
کسی نے جیسے بکھیرے ہوں آفتاب کے بیج
وہ میری روح میں اترا تو کب گمان بھی تھا
دبا رہا ہے مری روح میں عذاب کے بیج
تمام عمر کٹی اک فریب میں عزمیؔ
بکھیر کر وہ گیا دور تک سراب کے بیج