کسی خیال کی صورت میں اب گماں سے نکل
کسی خیال کی صورت میں اب گماں سے نکل
سخن کا تیر ہے تو ہونٹ کی کماں سے نکل
کبھی تو مجھ کو مرے عکس تک رسائی دے
اے آئنے تو کسی روز درمیاں سے نکل
چھپے ہوئے کوئی منظر مری نگاہ میں آ
اے کوئی ان کہے مصرعے مری زباں سے نکل
ترے سوا بھی بہت لوگ منتظر ہیں مرے
سو اپنی چوٹ لگا اور داستاں سے نکل
مرے نصیب کے تارے کہیں فضاؤں میں مل
میں چل پڑا ہوں زمیں سے تو آسماں سے نکل