لکھی جب آسمان نے تقدیر خاک کی

لکھی جب آسمان نے تقدیر خاک کی
مجھ کو تمام سونپ دی جاگیر خاک کی


بھاتے نہیں ہیں آنکھ کو میری یہ تاج و تخت
جاتی نہیں وجود سے تاثیر خاک کی


پر کھول تو دئے مرے صیاد نے مگر
پاؤں میں ڈال دی مرے زنجیر خاک کی


آنا ہے اس کی قید میں ہر اک وجود نے
لگنی ہے ہر وجود پہ تعزیر خاک کی


لو خاکساری سے بھی میں آگے نکل گیا
لو بن گیا ہوں آج میں تصویر خاک کی