زمیں بنائی نئے زاویے بنانے پڑے

زمیں بنائی نئے زاویے بنانے پڑے
کہیں پہ قوس کہیں دائرے بنانے پڑے


کہیں تھی روشنی مطلوب اور کہیں رونق
کہیں چراغ کہیں قمقمے بنانے پڑے


وہ اک سفر جو ہمیں زندگی کی شکل ملا
اس اک سفر کے کئی مرحلے بنانے پڑے


فراغتوں میں یہاں اور کچھ نہ بن پایا
ستم بنانے پڑے مسئلے بنانے پڑے


نئی ہواؤں سے لڑنے کے واسطے ازبرؔ
ہمیں چراغ نئے طور کے بنانے پڑے