لوگ آئے ہی نہیں مجھ کو میسر ایسے

لوگ آئے ہی نہیں مجھ کو میسر ایسے
جو مجھے کہتے کہ ایسے نہیں ازبرؔ ایسے


جیسا میں ہوں مرے چہرے کی ہنسی جیسی ہے
غور سے دیکھ کہ ہوتے نہیں جوکر ایسے


تیز دوڑا کے اچانک مری رسی کھینچی
اس نے سمجھایا مجھے لگتی ہے ٹھوکر ایسے


آنکھ کھلنے پہ جو اٹھتا ہوں تو چکراتا ہوں
کون دیتا ہے مجھے خواب میں چکر ایسے


زلف ایسی کے سیاہ ریشمی جنگل کوئی
نین اس شخص کے ہیں سرمئی مرمر ایسے


کوئی تو ہوتا جو سینے سے لگا کر کہتا
بات تھی بات کو لیتے نہیں دل پر ایسے


کس نے سوچا تھا کہ کمروں میں فقط چپ ہوگی
کس نے سوچا تھا کہ گزرے گا ستمبر ایسے


ہائے آخر میں وہی حادثہ پیش آیا سفیرؔ
ہمیں کہنا پڑا لکھے تھے مقدر ایسے