زمانے کی تجوری سے نکل کر
زمانے کی تجوری سے نکل کر
سنہری ہو گیا لمحوں میں ڈھل کر
مکمل ذائقہ اس زہر میں تھا
زباں بھی خوش ہوئی تھی دکھ نگل کر
ہے دو رویا تعلق کی کہانی
بچھڑتے ہیں سڑک کا رخ بدل کر
محبت چاند کی سرگوشیاں ہیں
یہی سرگوشیاں اب تو غزل کر
زمانہ تاک میں رکھے ہوئے ہے
ہمیں چلنا پڑے گا اب سنبھل کر