بدن میں پھول کھلے درد نے وصال کیا

بدن میں پھول کھلے درد نے وصال کیا
اذیتوں کی مہک نے مجھے نہال کیا


چراغ آیا نظر تو نظر پگھلنے لگی
ہم اہل چشم نے یوں آگ کا خیال کیا


میں چل رہا تھا مگر سانس رک گئی میری
گزرتے وقت نے ایسا عجب سوال کیا


ہر ایک شخص تھا ماتم کناں سو میں نے بھی
اداس رنگ پہن کر خزاں کو شال کیا


اسے چھوا تو دھنک کی گرہ کھلی ایسے
نفیس لمس نے پوروں میں انتقال کیا