نہ تیر ہے نہ نشانہ مگر دہائی ہے
نہ تیر ہے نہ نشانہ مگر دہائی ہے
منافقوں سے ہماری عجب لڑائی ہے
اگر اداسی بلائے تو دل سے جاؤں گا
پرانا رشتہ نبھانے میں کیا برائی ہے
مجھے پکارا ہے جادوگروں کی لڑکی نے
اسے بتاؤ پری مجھے سے ملنے آئی ہے
لہو رگوں سے نکالا لبوں پہ لا رکھا
غریب شہر نے یہ داستاں سنائی ہے
یہ دل کی چھت ہے یہاں ہر طرف دھندلکا ہے
جلا سکو تو محبت دیا سلائی ہے