زمانہ کے بارے میں اس کو خبر ہے
زمانہ کے بارے میں اس کو خبر ہے
اگر ہے تو اپنے سے وہ بے خبر ہے
سنانے میں تم کو زمانا لگے گا
مرا قصۂ غم بہت مختصر ہے
مرے پاؤں تھکتے نہیں ہے سفر سے
کوئی تو بتائے یہ کیسا سفر ہے
یہی سوچ کر آ کے بیٹھی یہاں پر
سنا ہے کہ تیری یہی رہ گزر ہے
گرایا جسے میں نے نظروں سے اپنی
وہ انسان تو آج تک در بدر ہے
پلٹ کر میں آ جاؤں گی تیری خاطر
تجھے آج میری ضرورت اگر ہے
سوا صبر کے اور کیا کہہ سکوں گی
تری تیغ کے نیچے ہی میرا سر ہے
مرا حال پوچھے ہے وہ آتے جاتے
مرے گھر کے باہر جو بوڑھا شجر ہے
اکائی سے نو تک پہنچ بھی جو جاؤں
دہائی بنوں کیسے تو ہی صفر ہے
عجب خوف کا انجناؔ ہے یہ عالم
مجھے خود سے تجھ کو زمانہ سے ڈر ہے