ان کی مخالفت سے مرا نام ہو گیا

ان کی مخالفت سے مرا نام ہو گیا
آغاز سے ہی خوب یہ انجام ہو گیا


میری برائی کرنے میں وہ بھی لگے رہے
میں یہ سمجھ رہی تھی مرا کام ہو گیا


جس کو بچایا دھوپ ہواؤں سے عمر بھر
قصر یقین وہ مرا نیلام ہو گیا


بے چینیوں میں کاٹ دی میں نے تمام شب
تجھ کو سکون مل گیا آرام ہو گیا


جس کو بنا کے رکھا تھا کل میں نے سر کا تاج
وہ ہی نظر میں بندۂ بے دام ہو گیا


اب آ کے مجھ پہ کھل ہی گئی اس کی حیثیت
چلئے اسی بہانے بڑا کام ہو گیا


سورج ابھی ڈھلا ہی ہے حیرت تو اس پہ ہے
اتنا اندھیرا کیسے سر شام ہو گیا