کوشش کرتی رہتی ہے سمجھاتی ہے

کوشش کرتی رہتی ہے سمجھاتی ہے
خوشبو کی بھاشا ہم کو کب آتی ہے


گھول کے سانسوں میں مدہوشی کی ہالہ
دھیرے سے دل پر دستک دے جاتی ہے


اس عورت کی خودداری بھی دیکھیں تو
اپنا حق بھی مانگنے میں شرماتی ہے


دنیا سے جب آگے چلنا سیکھ لیا
دنیا میرے پیچھے پیچھے آتی ہے


پتا تو کیول آدیشوں میں جیتا ہے
لیکن ماں سب کچھ کرکے دکھلاتی ہے


خوشیوں سے تو پچھلے دنوں سے ناتا ہے
مایوسی میری جنموں کی ساتھی ہے


ممی دھیان سے باہر آیا جایا کرو
میری بیٹی یہ مجھ کو سمجھاتی ہے


بیلا چمپا جوہی اور چنبیلی سی
بیٹی خوشبو سے گھر کو مہکاتی ہے


جس کے گھر میں خوشیوں کی جھنکاریں ہو
انجناؔ اس کو نیند کہاں پھر آتی ہے