طعنے

کل شب میں شہر عشق سے لوٹا جو اپنے گھر
دروازے طعنے کسنے لگا میرے حال پر


بولا دریچہ کیسے اکیلے ادھر جناب
کیوں اور کہاں پہ چھوٹ گیا ہم سفر جناب


چپ جو ہوا دریچہ تو گونجی صدائے بام
اب کر سکو گے سائے تلے میرے تم قیام


دیوار بولی کرکے مخاطب تمام کو
محتاج ہو گیا ہے بیچارہ کلام کو


اک ہو گئے دریچہ و دیوار و بام و در
میں چپ ہی تھا کہ بول پڑا سارا گھر کا گھر


پائی تھی کائنات ہی تم نے تو پیار میں
کیوں لٹ کے پھر تم آ گئے ہو اس حصار میں